Results 1 to 2 of 2

Thread: استخارہ کا مسنون طریقہ Û”Û”Û”Û” مفتی منیب الرØ+مان

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam استخارہ کا مسنون طریقہ Û”Û”Û”Û” مفتی منیب الرØ+مان

    استخارہ کا مسنون طریقہ Û”Û”Û”Û” مفتی منیب الرØ+مان

    ''استخارہ‘‘ Ú©Û’ لفظی معنی ہیں: ''خیر طلب کرنا‘‘ اور اس کا شرعی مفہوم یہ ہے: ایسا معاملہ جس Ú©Û’ دونوں پہلو شرعاً جائز ہیں ØŒ یعنی شرعاً آپ اُسے اختیار بھی کر سکتے ہیں اور ترک بھی کر سکتے ہیں لیکن انجام کار فائدہ اسے اختیار کرنے میں ہے یا ترک کرنے میں‘ اس Ú©Û’ بارے میں آپ Ú©Ùˆ تردّد ہے، آپ متذبذب ہیں، اپنی عقل Ú©ÛŒ روشنی میں آپ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کروں یا نہ کروں اور آپ کا دل اس طرف مائل بھی ہو رہا ہے، آپ اُس خیال Ú©Ùˆ ذہن سے جھٹک کر نکال بھی نہیں سکتے، گویا کیفیت یہ ہے: ''کہیں ایسا نہ ہو جائے، ویسا نہ ہو جائے‘‘، پس عواقب اور نتائج Ú©Û’ اعتبار سے دونوں پہلوئوں میں صاØ+بِ معاملہ Ú©Û’ Ø+Ù‚ میں خیر کس میں ہے‘ اس Ú©Û’ بارے میں اللہ تعالیٰ سے رہنمائی Ú©ÛŒ التجا کرنا۔
    جس کام Ú©Û’ کرنے کا شریعت میں Ø+Ú©Ù… ہے، اس Ú©Û’ لیے ''استخارہ‘‘ نہیں کیا جاتا، وہ تو ویسے بھی شریعت کا مطلوب ہے، فارسی کا مقولہ ہے: ''درکارِ خیر Ø+اجتِ استخارہ نیست‘‘، یعنی نیک کام میں استخارے Ú©ÛŒ کوئی Ø+اجت نہیں ہے۔ استخارہ گزشتہ اُمور Ú©Û’ بارے میں بھی نہیں کیا جاتا کہ کوئی آ کر آپ Ú©Ùˆ بتائے: ''آپ پر جادو ہو گیا ہے یا بندش کر دی گئی ہے اور اب اس کا توڑ کیا جائے گا‘‘ Û” جو کام شرعاً Ø+رام ہے اس Ú©Û’ لیے استخارہ کرنا بھی Ø+رام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ ذات پر بہت بڑی جسارت ہے اور اس Ú©Û’ غیظ وغضب Ú©Ùˆ دعوت دینے Ú©Û’ مترادف ہے۔ استخارہ صر ف مباØ+ اُمور میں ہوتا ہے کہ: فلاں شخص Ú©Û’ ساتھ اپنے بچے کا رشتہ قبول کریں یا نہ کریں، کسی شخص Ú©Û’ ساتھ کاروباری شراکت کریں یا نہ کریں، آپ Ú©Ùˆ ایک سے زائد مقامات سے ملازمت Ú©ÛŒ پیشکش آتی ہے، آپ تذبذب میں Ù¾Ú‘ جاتے ہیں کہ کسے قبول کریں اور کسے رَد کریں وغیرہ۔ علامہ ابن ابی جمرہ لکھتے ہیں: ''واجب اور مستØ+ب کام Ú©Û’ کرنے Ú©Û’ بارے میں استخارہ نہیں کیا جائے گا (کیونکہ اسے کرنا ہی ہے) اور Ø+رام اور مکروہ Ú©Û’ ترک کرنے Ú©Û’ بارے میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا (کیونکہ شرعاً اسے ترک کرنا لازم ہے)ØŒ پس استخارہ صرف مباØ+ کام میں کیا جائے گا، البتہ اگر مستØ+ب کام میں دو امر متعارض ہوں کہ وہ کس کام سے ابتدا کرے تو اس میں بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے‘‘ (فتØ+ الباری، ج:7ØŒ ص: 433 تا 434)Û”
    Ø+دیث پاک میں ہے: (1) ''Ø+ضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ Ù†Û’ فرمایا: جس Ù†Û’ کسی درپیش معاملے میں اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کی، وہ (کبھی) ناکام نہیں ہوگاا ور جس Ù†Û’ (درپیش مسئلے میں کسی صاØ+بِ رائے اور صائب الرائے سے) مشورہ طلب کیا، وہ کبھی شرمسار نہیں ہو گا اور جس Ù†Û’ (اپنی طرزِ زندگی میں) میانہ روی اختیار کی، وہ (کبھی) Ù…Ø+تاج نہیں ہوگا‘‘ (معجم الاوسط: 6627)ØŒ (2) Ø+ضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے تو ان کلمات سے دعا کرتے: ''اے اللہ! اس میں میرے لیے خیر مقدر فرما اور اُسے میرے دل میں پسندیدہ بنا‘‘ (ترمذی: 3516)Û” امام غزالی لکھتے ہیں: ''بعض اصØ+ابِ بصیرت Ù†Û’ کہا ہے: جس Ú©Ùˆ چار چیزیں عطا ہوں Ú¯ÛŒ تو وہ چار چیزوں سے Ù…Ø+روم نہیں ہوگا: (1): جسے شکر Ú©ÛŒ توفیق نصیب ہوئی، وہ اس میں مزید برکت سے Ù…Ø+روم نہیں ہو گا، (2): جسے توبہ Ú©ÛŒ توفیق نصیب ہوئی، وہ قبولیت سے Ù…Ø+روم نہیں ہو گا، (3): جسے استخارے Ú©ÛŒ توفیق نصیب ہوئی ØŒ وہ خیر Ú©Ùˆ پانے سے Ù…Ø+روم نہیں ہوگا، (4): جسے (صائب الرائے شخص سے) مشورہ کرنا نصیب ہو گا، وہ صØ+ÛŒØ+ بات Ú©Ùˆ پانے سے Ù…Ø+روم نہیں ہو گا‘‘ (اØ+یاء علوم الدین، ج:1ØŒ ص:206)Û”
    استخارہ کرنے کا طریقہ Ø+دیث پاک میں تعلیم فرمایا گیا: Ø+ضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''نبی ï·º ہمیں تمام (جائز اور مباØ+) اُمور میں ''استخارہ‘‘ Ú©ÛŒ تعلیم اس اہتمام Ú©Û’ ساتھ فرماتے تھے جس طرØ+ قرآن Ú©ÛŒ کسی سورت Ú©ÛŒ تعلیم ہو، (تو استخارہ یہ ہے کہ) جب کوئی اہم کام درپیش ہو تو دو رکعت نماز (نفل) Ù¾Ú‘Ú¾Ùˆ اور پھر اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ بارگاہ میں یہ دعا کرو: ''اے اللہ! میں خیر Ú©Ùˆ جاننے Ú©Û’ لیے تیرے علم سے رہنمائی چاہتا ہوں اور خیر Ú©Ùˆ Ø+اصل کرنے Ú©Û’ لیے تیری ذات سے توفیق کا طلبگار ہوں اور میں تیرے فضل عظیم سے سوال کرتا ہوں ØŒ کیونکہ تو قدرت والا ہے اور میں عاجز Ùˆ بے بس ہوں، تو معاملات (Ú©Û’ اچھے یا برے انجام) Ú©Ùˆ جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، کیونکہ تو غیبی امور Ú©Ùˆ بہت جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین Ú©Û’ اعتبار سے، میرے معاش Ú©Û’ اعتبار سے، میرے انجامِ کارکے اعتبار سے بہتر ہو یا فوری اور دیرپا فائدے Ú©Û’ اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے، تو تُو اسے (اپنے فضل وکرم سے) میرے لیے مقدر فرما اور اے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ معاملہ (جو مجھے درپیش ہے)ØŒ میرے دین، میرے معاش اور میرے انجامِ کار Ú©Û’ اعتبار سے یا میرے فوری اور دیرپا فائدے Ú©Û’ اعتبار سے میرے لیے برا ہے، تو اس Ú©Ùˆ مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور (اس Ú©Û’ بدلے میں) جہاں بھی خیر ہے، وہ میرے لیے مقدر فرما، پھر میرے دل میں اس Ú©Û’ لیے پسندیدگی پیدا فرما (یعنی مجھے قلبی اطمینان اور قرار وسکون نصیب ہو جائے کہ بس یہی میرے لیے خیر ہے)‘‘ اور ''ہٰذَالْاَمْرَ⠀˜â€˜ (یعنی یہ معاملہ) Ú©Û’ بجائے (چاہے تو) اپنی Ø+اجت کا نام Ù„Û’ کر دعاکرے‘‘ (صØ+ÛŒØ+ بخاری: 6382)ØŒ اس Ø+دیث Ú©Ùˆ امام مسلم Ú©Û’ سوا Ù…Ø+دثین Ú©ÛŒ ایک جماعت Ù†Û’ روایت کیا ہے۔
    علامہ علاء الدین Ø+صکفی لکھتے ہیں: ''اور ان مستØ+ب نمازوں میں دو رکعت نمازِ استخارہ بھی ہے‘‘، اس Ú©ÛŒ شرØ+ میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''اور ''Ø+لیہ‘‘ میں ہے: اور اس دعائے استخارہ Ú©ÛŒ ابتدا اور آخر میں Ø+مد وصلوٰۃ پڑھنا مستØ+ب ہے اور ''الاذکار‘‘ میں ہے: پہلی رکعت میں سورۂ ''الکافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں سورۂ ''اخلاص‘‘ Ù¾Ú‘Ú¾Û’ اور بعض بزرگوں سے روایت ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ ''الکافرون‘‘ Ú©Û’ بعد سورۂ القصص Ú©ÛŒ آیات:68تا 69 اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص Ú©Û’ بعد سورۂ اØ+زاب Ú©ÛŒ آیت 36 Ú©Ùˆ ''مِنْ اَمْرِھِمْ‘‘ تک Ù¾Ú‘Ú¾Û’Û” (اور اگر درپیش مسئلہ Ú©Û’ بارے میںکسی ایک جانب قلبی اطمینان Ø+اصل نہ ہوتو) سات دن تک مسلسل اس طریقۂ کار Ú©Û’ مطابق اللہ تعالیٰ سے استخارے Ú©ÛŒ مسنون دعا مانگتے رہنا چاہیے جیسا کہ ''ابن السّنی‘‘ Ù†Û’ روایت کیا ہے: ''اے انس! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس Ú©Û’ بارے میں اپنے رب سے سات بار رہنمائی Ú©ÛŒ التجا کرو، پھر سمجھو کہ تمہارے دل میں درپیش مسئلے Ú©Û’ کرنے یا نہ کرنے Ú©ÛŒ بابت جو بات قرار پا گئی ہے، بس خیر اسی میں ہے‘‘ اور اگر استخارے Ú©Û’ لیے نفل نماز پڑھنا دشوار Ù…Ø+سوس ہو تو صرف دعا پر بھی اکتفا کر سکتے ہو، یہ (''اذکار‘‘ Ú©ÛŒ عبارت کا) خلاصہ ہے۔ ''شرØ+ الشرعۃ‘‘ میں ہے: ہم Ù†Û’ اپنے مشایخ سے سنا ہے کہ مذکورہ دعا Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد باوضو ہوکر قبلہ رُو سو جائے ØŒ پس اگروہ خواب میں سفید یا ہرا رنگ دیکھے تو سمجھ Ù„Û’ کہ اس میں خیر ہے اور اگر کالا یا سرخ رنگ دیکھے توسمجھ Ù„Û’ کہ اس میں شر ہے، پھر اس کام سے اجتناب کرے۔ (ردالمØ+تار علی الدر المختار جلد: 2 ØŒ ص: 409 تا 410)Û”
    Ø+دیث پاک میں خواب میں کسی چیز Ú©Û’ نظر آنے یا نہ آنے کا ذکر نہیں ہے اور نہ خواب کا آنا ضروری ہے، یہ بزرگوں اور اہل خیر Ú©Û’ اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن اگر خواب نظر آ جائے تو اس سے رہنمائی Ø+اصل Ú©ÛŒ جا سکتی ہے، مگر آج Ú©Ù„ Ú©Û’ خواب بالعموم افکارِ پریشاں ہوتے ہیں، جنہیں سورۂ یوسف میں ''اَضْغَاثُ اَØ+ْلَام‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ایک دن خواب میں ایک رخ دیکھتے اور دوسرے دن اس Ú©Û’ برعکس، چنانچہ وہ اطمینانِ قلبی Ú©Û’ بجائے ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے Ú©Û’ بعد جب دل Ú©Ùˆ کسی ایک جانب سکون وقرار نصیب ہو جائے، تو اسے اﷲ تعالیٰ Ú©ÛŒ طرف سے سمجھے اوراُس Ú©ÛŒ ذات پر توکّل کرتے ہوئے اُس کام Ú©Ùˆ انجام دے۔ اللہ تعالیٰ سے کامیابی Ú©ÛŒ دعا کرتے ہوئے یہ امید رکھے کہ وہ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔ اگر خدا نخواستہ اس پر عمل کرنے Ú©Û’ نتیجے میں کسی ناکامی کا سامنا ہو، تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ منشا Ú©Ùˆ سمجھنے میں مجھ سے خطا ہو گئی ہے یا یہ گمان کرے کہ اگر اس Ú©Û’ برعکس کیا ہوتا تو ممکن ہے کہ اس سے بڑی ناکامی یا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ہو سکتا ہے کہ ایک چیز Ú©Ùˆ تم اپنے Ø+Ù‚ میں ناپسندیدہ سمجھو، (مگر) وہ (درØ+قیقت) تمہارے Ø+Ù‚ میں بہتر ہو اور (یہ بھی) ہو سکتا ہے کہ ایک چیز Ú©Ùˆ تم اپنے لیے پسندیدہ سمجھو (مگر درØ+قیقت) وہ تمہارے لیے بری ہو‘‘ (البقرۃ: 216)Û” صرف نبی کا خواب یا الہام '' قطعی Ø+ُجت‘‘ ہوتا ہے، غیر نبی کا خواب یا الہام ایک ظنّی اَمر ہے، لہٰذا اگر آدمی Ù†Û’ کسی مسئلے میں استخارہ کیا اور بوجوہ اس پر عمل نہ کیا، تو اس سے گنہگار نہیں ہو گا، نہ اُس پر کوئی وبال آئے گا۔ ''استخارہ‘‘ Ú©ÛŒ روØ+ یہ ہے کہ جس بندے کوکوئی مسئلہ درپیش ہے، وہ خود استخارہ کرے، کیونکہ جتنا درد، قلبی وابستگی، Ø+ضوریِ قلب، تضرُّع اور عاجزی کسی شخص Ú©Ùˆ اپنے معاملے میں ہو سکتی ہے، دوسرے شخص Ú©Ùˆ نہیں ہو سکتی۔ Ø+دیث میں ہے: ''رب ذوالجلال فرماتا ہے: میں ان Ú©Û’ پاس ہوتا ہوںجو میری (خشیت Ùˆ Ù…Ø+بت اور انکسارکی) وجہ سے شکستہ دل رہتے ہیں‘‘(الشفاء، جلد:1ØŒ ص:78)Û”
    جو شخص اپنے دَرپیش مسئلے میں چند بار عاجزی سے اپنے رب Ú©Û’ Ø+ضور التجا اور طلبِ خیر Ùˆ دعا Ú©Û’ لیے ذہنی، فکری اور عملی طور پر آمادہ نہ ہو، وہ استخارے Ú©ÛŒ روØ+ اور Ø+قیقت Ú©Ùˆ سمجھا ہی نہیں۔ رہے وہ لوگ جو استخارے Ú©Û’ نام پر ماضی Ú©Û’ اَØ+وال بتاتے ہیں کہ کسی پر کالا جادو ہوگیا ہے یا سفلی عمل کر دیا گیا ہے، الغرض چند سیکنڈ میں یہ تمام غیبی اُمور ان پر منکشف ہو جاتے ہیں اور ایک ہی لمØ+Û’ میں اُن کا Ø+Ù„ بھی Ù†Ú©Ù„ آتا ہے، یہ Ø+دیث میں نہیں ہے۔ اس سے لوگ توہّم پرستی اور تشکیک میں مبتلا ہوتے ہیں، تقدیرِ الٰہی پر رضا، جو مومن کا شعار ہونا چاہیے، اُس میں کمزوری واقع ہوتی ہے۔ پھر لوگ کسی مشکل صورتِ Ø+ال میں، جب انہیں کوئی فیصلہ Ú©Ù† راہ سجھائی نہ دے، اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ ذات سے براہِ راست رجوع کرنے اور اس Ú©Û’ Ø+بیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے توسُّل Ú©ÛŒ روش Ú©Ùˆ ترک کرکے، طرØ+ طرØ+ Ú©Û’ عاملوں سے رجوع کرتے ہیں۔ استخارہ تو مستقبل میں کسی کام Ú©Û’ کرنے یا نہ کرنے Ú©Û’ بارے میں اﷲ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کر نا ہے۔ آج Ú©Ù„ اسے کاروبار بنا دیا گیا ہے اور کئی جگہ بورڈ آویزاں ہوتے ہیں: ''استخارہ کرا لو‘‘، یعنی بندہ اتنا بے نیاز ہو گیا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ بارگاہ میں رجوع کرنے Ú©Û’ بجائے یہ کام بھی نذرانہ اور فیس دے کرکسی اور سے کرانا چاہتا ہے۔ الغرض درپیش معاملات اور مباØ+ امور میں سے کسی ایک Ú©Û’ انتخاب Ú©Û’ لیے یا کسی کام Ú©Û’ کرنے یا نہ کرنے Ú©Û’ بارے میں استخارہ کرنا افضل اور مستØ+ب ہے، لیکن یہ واجب نہیں ہے، یعنی استخارہ نہ کرنے پر گنہگار نہیں ہو گا۔





  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: استخارہ کا مسنون طریقہ Û”Û”Û”Û” مفتی منیب الرØ+مان


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •